بحریہ ٹاون کے مالک ملک ریاض کی گرفتاری کا امکان
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پیر کے روز جعلی اکاونٹس کیس کیسماعت کے دوران کہا کہ ملک ریاض عدالت میں پیش ہوں، اگر وہ نہ آئے تو انہیں پکڑوا سکتے ہیں، بحریہ ٹائون کے ملازمین کو تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہیں، بجلی کے بل ادا نہیں کیے جا رہے، کیا ہمیں سمجھ نہیں آتی۔
تفصیلات کے مطابق پیر کے روز چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جعلی بینک اکائونٹس کیس کیسماعت کی ۔ اس موقع پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے احسان صادق نے رپورٹ پیش کی۔سماعت کے آغاز پر عدالت نے کمرے میں پروجیکٹر لگانے کا حکم دیا اور ریمارکس دئیے کہ جے آئی ٹی کی سمری اوپن عدالت میں پروجیکٹر پر چلائی جائے گیاس دوران عدالت نے سابق صدر آصف علی زرداری، بحریہ ٹائونکے چیئرمین ملک ریاض اور زین ملک کو نوٹس جاری کردئیے۔سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے تمام افراد کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی استدعا کی گئی۔جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ وزارت داخلہ کو درخواست دیں ای سی ایل سے متعلق وہ فیصلہ کریں گے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 60 منزلہ آئیکون ٹاور کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع ہے، بحریہ گروپ اور ڈنشا کے اس میں شیئرز ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئیکون ٹاور میں سرکاری زمین آتی ہے، کیا اس کا نقشہ منظور کروایا گیا جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ باغ ابن قاسم کی زمین بھی اس آئیکون ٹاور میں آتی ہے۔چیف جسٹسنے استفسار کیا کہ یہ ڈنشا کون ہی جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ ڈنشا آصف علی زرداری کے فرنٹ مین ہیں۔چیف جسٹس نے استسار کیا کہ ڈنشا کے آصف زرداری کے فرنٹ ہونے کے کیا ثبوت ہیں ،یعنی بحریہ گروپ کک بیکس دے رہا ہی ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے ہم بحریہ آئیکون کو دیکھ لیتے ہیں جس پر انہیں بتایا گیا کہ آئیکون ٹاور غیرقانونی طور پر سرکاری زمین پر کھڑا کیا گیا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کہ اس کے مالکان کون کون ہیں جس پر بتایا گیا کہ زرداری گروپ کے 50 فیصد شیئرز ہیں جبکہ بحریہ گروپ کے زین ملک نے 27 ارب اس پر خرچ کیے ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم ایڈووکیٹ سے مکالمہ کیا کہ ملک ریاض تو کہتے ہیں کہ ان کے پاس پیسے ہی نہیں ۔
جس پر طارق رحیم نے جواب دیا کہ میں اس کیس میں وکیل نہیں ہوں۔عدالت میں جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک ارب 20 کروڑ روپے فریال تالپور کے اکائونٹ میں گئے، فریال تالپور کے اکائونٹس سے بلاول ہائوس لاہوراور ٹنڈوالہ یار کی زمین خریدی گئی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لاہور کا بلاول ہائوس کس کی ملکیت میں ہی جس پر بتایا گیا کہ پہلے تحفے میں دیا گیا تھا، بعد میں تحفہ واپس کرکے بحریہ ٹائون کو آدھی رقم ادا کردی گئی ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پہلے یہ تحفے میں دیا گیا پھر رقم ادا کی گئی ، کیا تحفہ قبول نہیں کیا گیا ۔جے آئی ٹی کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ یعنی یہ بحریہ گروپ اور زرداری گروپ کا ٹرائیکاہی ۔سالگرہ، پاسپورٹ فیس، ایمرجنسی لائٹس کا بل اومنی گروپ سے دیا گیا جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ ہر مرتبہ کمپنیاں تبدیل کرکے ادائیگیاں کرتے رہے۔
دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ بلاول بھٹو زرداری کے دوپہر کے کھانے کا خرچہ 15 ہزار روپے ادا کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ 15 ہزار کوئی بڑی رقم نہیں لیکن یہ رقم اومنی گروپ سے ادا کی گئی، ممکن ہے وہ اس کے شیئر ہولڈرز ہوں۔اس پر جے آئی ٹی کی جانب سے بتایا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ شیئر ہولڈرز ہوں اور پھر وہ ظاہر کردیں۔عدالت کو بتایا گیا کہ پہلے یہ 23 کمپنیاں تھیں اور 2008 سے 2018 تک 83 کمپنیاں بن چکی ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ملک ریاض کدھر ہیں ہم کسی کے بتانے کے محتاج نہیں اگر وہ نہ آئے تو پکڑوا سکتے ہیں۔چیف جسٹسنے کہا کہ ہم نے ملک ریاض کو بحریہ ٹائون کا نام استعمال کرنے سے روکا تھا ۔ کیا وہ ابھی بھی بحریہ ٹائون کا نام استعمال کر رہا ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ بحریہ ٹائون کے ملازمین کو تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہیں،بجلی کے بل ادا نہیں کیے جا رہے، کیا ہمیں سمجھ نہیں آتی ۔کوئی کتنا بھی بیمار ہو، پیمپر کے ساتھ آ جائے گا، یہ وہ پاکستان نہیں جو پہلے کا تھا، جہاں سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ کی جاتی تھی۔اب پراسکیوشن کو نہیں بلکہ انہیں خود یہ سب ثابت کرنا ہو گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہملک ریاض عدالت میں پیش ہوں، اگر وہ نہ آئے تو انہیں پکڑوا سکتے ہیں۔
Comments
Post a Comment